اقبال سروبہ ۔۔۔ دیکھ کے ہر سو خونی منظر میری تو پتھرائی آنکھ

دیکھ کے ہر سو خونی منظر میری تو پتھرائی آنکھ
اس کے پس منظر میں جھانکو کس کس کی گہنائی آنکھ

بینا ، ہی نابینا ہوں جب پھر منزل پر پہنچے کون
زرداروں کی دیکھ کے حالت میری تو شرمائی آنکھ

دیکھا ہے فقدان حیا کا جب سے خونی رشتوں میں
یکسر ہی گرداب کی صورت پھر میری چکرائی آنکھ

جانے کس گردش نے اس کو حال سے ہے بے حال کیا
دیکھ کے اس کا اترا چہرہ میری تو بھر آئی آنکھ

اس کے سوا تو اپنے پاس بھی اور ذریعہ کوئی نہ تھا
صبر و شکر کے جلووں سے بس ہم نے تو بہلائی آنکھ

اس کے دل میں کب ایمان کی دولت گھر کر سکتی ہے
دیکھ کے سیم و زر کی کرنیں جس کی بھی للچائی آنکھ

داد نہ دوں اقبال سروبہ کیوں نہ اس باعظمت کو
اہل شر میں رہ کر جس نے اپنی آپ بچائی آنکھ

Related posts

Leave a Comment